۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 393475
5 اکتوبر 2023 - 06:24
کتاب محمد رسول الله صلی الله علیه و آله

حوزه/ یہ عظمت محمد مصطفٰی (ص) ہے کہ خالق کائنات نے اپنے حبیب کا نام لیکر کبھی بھی مخاطب نہیں کیا۔ قرآن کریم کی 6236 آیتیں شاہد ہیں۔ پروردگار عالم جو کن فیکن کا مختار ہے وہ آپؐ کو کبھی یٰسین، طحٰہ، مزمل اور مدثر کے خوبیوں سے مخاطب کرتا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی |

ہے آیتوں کے لب پہ قصیدہ رسول کا

قرآن پڑھتا ہے چہرہ رسول کا

یہ عظمت محمد مصطفٰی (ص) ہے کہ خالق کائنات نے اپنے حبیب کا نام لیکر کبھی بھی مخاطب نہیں کیا۔ قرآن کریم کی 6236 آیتیں شاہد ہیں۔ پروردگار عالم جو کن فیکن کا مختار ہے وہ آپؐ کو کبھی یٰسین، طحٰہ، مزمل اور مدثر کے خوبیوں سے مخاطب کرتا ہے۔ پیغمبر اسلام عظیم ہے۔ کمال خلاق، جمال ہستی، عظمت بشر، وہ عکس بھی، آئینہ بھی، خط بھی، نقط بھی، دائرہ بھی، نظارہ، نظر بھی، شرح احکام حق تعالٰی، شعور لایا، کتاب لایا، حشر تک کا نصاب لایا، وہ ہر زمانے کا راہبر بن کر آیا کیونکہ وہ علم، عمل اور تربیت کے لیے معلم بن کر آیا، وہ آدم، ابراہیم، اسماعیل، نوح، موسیٰ، عیسیٰ سے زیادہ بلند ارادہ و ہمت کا جاہ کیونکہ وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے، وہی سلطان بحر و بر ہے، وہ ان مسلمانوں کے لیے درخشندہ منارہ جو کہتے ہیں ہمارے جیسا: جو تیغ زن سے لڑے نہتا، غالب آکر صلح کرے اور دشمنوں و مخالفوں کی نظر میں "الامین و الصادق" و معتبر ہے۔ وہ تو خلوتوں میں، صف بہ صف بھی، وہ سر بسجدہ، سر بکف، کہیں موتی، کہیں ستارہ اور جامعیت کا ستارہ لیکن ہم 73 فرقوں میں تقسیم ہوگئے:

جس کو نبی کی ذات سے وابستگی نہیں

اس کی قسم خدا کی کوئی زندگی نہیں

ہر ذہن منور ہو جائے ہر قلب فروزاں ہو جائے

میلاد کی شب آئی، عالم میں چراغاں ہو جائے

اللہ تبارک و تعالٰی اپنی کتاب ارشاد فرما رہا ہے 'وَمَا اَرسَلنکَ اٍلا رحمت العالمین' تمام جن و انس کے لیے رحمت العالمینؐ کی حیات طیبہ نمونۂ عمل ہے۔ آپؐ کے سامنے جہاد، تاریک دنیا، تنہائی، آپؐ کے جانی دشمن متکبر، سرکش، سخت گیر، بد اخلاق تھے، ظاہری و مادی وسائل سے لیس تھے، اور علم و معرفت سے نابلد تھے۔ کہیں اسلحہ سے لیس عرب کے مختلف وحشی گروہ تھے، لیکن آپؐ نے اسلام کی تبلیغ کے لیے بحث و مباحثے کیے، جنگیں لڑیں، بہت سی سختیاں برداشت کیں، اقتصادی بائیکاٹ کا سامنا کیا، ساتھ ہی ساتھ اس کے دو بڑی سلطنتوں، یعنی ایران اور روم کی طرف دعوت دی جو آپؐ کے خلاف تھیں، ایسے مخالف حالات میں بھی حیران و پریشان نہیں ہوئے بلکہ اپنی سچی بات اور موقف کا صبر و استقلال سے واضح کرتے رہے۔ خاتم الانبیاءؐ نے اپنی توہین کا سامنا کیا، رنج و غم برداشت کیے۔ اپنی جان کے لیے خطرات مول لیے تب لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو دائرۂ اسلام میں داخل کر سکے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج کا ہندوستانی ماحول مسلمانوں کے لیے بہرحال سنگین ہے لیکن امت مسلمہ کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ آپؐ کی حیات طیبہ کو اپنا کر، مخالف ماحول کو اپنے حق میں کرنا ناممکن نہیں۔ بے شک، آپؐ کی سیرت پر چل کر کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوا جاسکتا ہے۔

سید الانبیاءؐ کا جہاد اس وحشت زدہ اور تاریک ماحول کے خلاف تھا کہ جس کے بارے میں امیرالمومنین، امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: "یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں اپنے پیروں تلے روند دیا تھا اور اپنے محکم سُموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے۔" (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 2) ہر طرف سے فتنوں نے لوگوں کو دبا کر رکھا تھا۔ دنیا طلبی، شہوت رانی، ظلم و دست درازی اور دیگر اخلاقی برائیاں انسانوں کے وجود میں رچ بس چکی تھیں۔ طاقتور لوگوں کے ہاتھ بغیر کسی روک ٹوک کے کمزورں کی طرف اُٹھ رہے تھے۔ استحصال اور ظلم و ستم کا ماحول گرم تھا۔

ہمارے آخری پیغمبر، حضرت محمد مصطفٰیؐ کی بعثت کا ایک مقصد ہے اور یہ ہے "اشرف المخلوقات کی بہترین تربیت" جیسا کہ رب العزت فرما رہاہے: "یعنی بےشک خدا وند عالم نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان کے لیے انہیں میں سے ایک رسولؐ کو مبعوث کیا تاکہ وہ انہیں آیات قرآنی سنائے اور ان کے نفوس کو پاک کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ اگرچہ پہلے وہ لوگ ضلالت و گمراہی میں تھے (ضلالت و گمراہی سے نکالنے کے لیے نبیؐ کو مبعوث کیا) سورۃ آلٍ عمران/ 164 ویں آیت میں مزید وضاحتی ترجمانی کرتا ہے۔

ان آیات سے یہ صاف عیاں ہے کہ رسول اکرمؐ کی بعثت کا مقصد "لوگوں کو گمراہیوں سے نجات دینا اور ان کی بہترین تربیت ہے۔" سرورٍ کائناتؐ کا بعثت کا مقصد اور ہدف ہے کہ تمام انسانوں کو منزل کمال اور سعادت سے ہمکنار کرنا۔ چونکہ انسان ہی تمام مخلوقات میں اشرف ہے۔ لہذا سرکارٍ دوعالمؐ نے امت کی اصلاح کے لیے آپؐ کی یہی کوشش رہی ہے کہ انسان کمال و جمال کی منزل طئے کرے اور صراط مستقیم پر گامزن کرے۔

خدا نے انسان کے لیے نمونہ اور اُسوہ بھیجا ہے۔ انسانوں کے لیے سید البشر میں نمونہ موجود ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے بتایا کہ سید المرسلین یکتا اور بہترین مجسم نمونۂ عمل ہیں۔ اب انسان کو چاہیۓ کہ خاتم النبیین کے اعمال، اقوال، ان کے معاشرت، کردار، رفتار و گفتار کو دیکھے اور اسے دیکھ کر خود عمل کرتا رہے۔ لہذا انسان اپنے ہر کام میں اللہ سبحان و تعالٰی کے رسول اعظم کی پیروی کرے، یہ عمل دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے ضامن ہے۔

تمام امت مسلمہ پر فرض ہے کہ اپنے کردار سازی کے لیے حضرت محمد مصطفٰیؐ کی حیات طیبہ کا بغور مطالعہ کریں، آپؐ کی خصوصیات کو اپنائیں، اپنے گھر، اپنے خاندان، دوست، معاشرہ، شہر اور وطن کے افراد کے لیے نمونہ بن کر دکھائیں آج اپنے وطن اور بیرون ممالک میں مسلمانوں کو دوسرے اقوام کے افراد کی نظروں میں حقیر سمجھا جا رہا ہے۔ وجوہات کا تجزیہ اور معائنہ ضروری ہے۔ آج یہ اہم خوبی کا فقدان مسلمانوں میں شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے جبکہ امانت داری اور صداقت اسلام اور مسلمانوں کا علامتی نشںانٍ امتیاز ہے۔ آپ کی زندگی سے نایاب گوہر عشاق میں تلاش کریں گے تو مایوسی نصیب ہوگی۔ نایاب گوہرٍ مصطفوی کا فقدان ہے۔

اگر امت مسلمہ اسلام کے پرچم کو دنیا میں لہرانا چاہتی ہے تو ہر فرد بشر کو حبیب ربانی کے اخلاق و سیرت پر عمل پیراں، قول و فعل، عہد و پیمان کا مکمل پابند ہونا ہوگا۔ اخلاق کے اہم نقطے ہیں: امانت داری، صداقت، سادگی، صبر و شکر وغیرہ۔ سیرت میں درس، عبرت، عدالت، تبلیغی، عملی، حقوق العباد، مساواتٍ مستورات۔

تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد مصطفٰی (ص)، آئمہ اطہار علیہم السلام، اسلام، قرآن اور محبانٍ محمد و آل محمد کے دشمن 570 عیسوی یعنی ولادت باسعادت حضرت محمد مصطفٰی (ص) کے بعد سے ہی زبردست دشمن بنے بیٹھے ہیں اور نقصان پہنچانے کے لیے ہر وقت آمادہ ہیں۔ چند نام لکھنا ضروری ہے تاکہ موجودہ نسل اور آئندہ نسلوں کو دشمن شناسی و شناخت کر سکیں ان میں اہم نام ہیں: سفیان، معاویہ، یزید، ابن ابی قحافہ، ہشام، منصور دوانقی، ہارون رشید، مامون رشید، معتمد باللہ، کلی طور پر بنی امیہ و بنی عباسی، آج کے دور میں شیطان بزرگ، امریکہ، اسرائیل، یہودی اور سعودی شیخ لیکن یہ ظالیمین کبھی کامیاب و کامران نہیں ہو سکے۔

کردار،زہد، تقویٰ، صبر، شکر، شخاوت، علم، عقل، صلاحیت، اخلاق، و معرفت سے رہبر کبیر امام خمینی رحہ، رہبر معظم امام خامنہ ای اور آیتہ اللہ العظمٰی سید علی الحسینی سیستانی دام ظلہ الوارف نے اپنی تدبر و تفکر اور اتباع رسول اکرم اور آئمہ اطہار علیہم السلام، قرآن اور حدیث کی روشنی میں قوم و ملت کے سر کو بلند کیا۔ سعودی عرب کے آیتہ اللہ شیخ نمر باقر النمر نے گردن قلم کروا دیا لیکن سعودی عرب کی باطل حکومت کی بیعت نہیں کیا۔ امام خمینی رحہ سے ملاقات کر شیخ زک زاکی نے نائجیریا میں انقلاب برپا کر کروڑوں نائجیریائ کو شیعہ بنایا۔ امام خامنہ ای حفظ اللہ نے امریکہ، اسرائیل، یوروپی ممالک اور عرب ملکوں کا آہنی ارادہ واعتماد سے تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے باطل قوتوں کو شکست فاش دی۔

محمد مصطفٰیؐ کی پوری دنیا ہی دشمن تھی لیکن اس میں خاص طور پر پہلا دشمن ارد گرد کے قبائل تھے، دوسرے نمبر پر مکہ مکرمہ میں موجود مشرکین تھے، جبکہ مکہ کو مرکزیت حاصل تھی۔ تیسرا سب سے بڑا دشمن یہودی تھے۔ چوتھے دشمن، منافقین تھے اور پانچواں دشمن وہ تھا، جو ہر مسلمان اور مومن کے باطن میں موجود تھا اور یہی دشمن سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ راقم الحروف یہ محسوس کرتا ہے کہ دشمنوں کی پہچان کرائی جائے۔ ایسا لکھنا لازم ہے کیونکہ دشمن شناسی کامیابی کی خاص علامت ہے۔

570 عیسوی سے لیکر 2023 عیسوی تک امت محمدی کے سب سے بڑے دشمن اپنے مکر و فریب سے یہودی ہی قرار پائے۔ یہ ایسے ناقابل اطمینان لوگ تھے جنہوں نے وقتی طور پر مسلمانوں کے ساتھ مدینہ میں ہی مل جل کر رہنے کا عہد کیا تھا مگر پھر بھی ایزا ٕ رسائی، خلل اندازی اور تخریب کاری سے باز نہیں آتے تھے۔ آج کے دور میں جو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے، قرآن کافی ہے ان کے لیے مفیدٍ ذکر ہے کہ سورۃ بقرہ کا ایک اہم حصہ اور بعض سورتیں یہودیوں کے ساتھ آپ کی ثقافتی جنگ پر مشتمل ہیں۔ یہودی بڑے آگاہ، ہوشیار اور شاطر تھے، کمزور عقیدے کے لوگوں کے دل و دماغ کو متاثر کر دیتے تھے، شازشیں کرتے، لوگوں کو نااُمید اور مایوس کرتے تھے اور لوگوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیتے تھے۔ یہ یہودی رسول اکرمؐ کے ایسے دشمن تھے جن کی دشمنی منظم اور منصوبہ بندی پر استوار تھی۔ دشمن نمبر ایک کی شناسی کرانا مقصود ہے کہ یہ آج پوری دنیا میں منظم اور منصوبہ بندی سے امت محمدی کے خلاف شازشیں کر رہے ہیں۔ نام نہاد مسلم اور عرب ممالک ان کے ہم نوالہ ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں۔ یہودیوں کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ یہ کہنے والے کہ ہمارے لیے اللہ اور قرآن کافی ہے، اللہ پاک ان کی اور سب کی ہدایت فرمائے!

رسولؐ اللہ جب مدینہ میں داخل ہوئے تو آپؐ کا تین یہودی قبیلوں کا سامنا ہوا۔ یہ تین قبیلے بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ تھے۔ پہلے قبیلے نے حضرت محمد مصطفٰیؐ سے خیانت کی، دوسرے قبیلے نے معاہدے کو توڑا۔ ان کے خیانت کی داستان بڑی اہم ہے۔ تیسرے قبیلے نے جنگ خندق میں معاہدے کے خلاف دھوکا دیا۔

پیغمبر اکرمؐ ہمیشہ تدبر اور غور و فکر کے بعد کوئی کام انجام دیتے تھے اور ہر کام کو بر وقت کیا کرتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپؐ نے کبھی بھی معنویت و ہدایت اور تعلیم و تربیت کی نور افشانی میں ذرہ برابر تامل سے کام نہیں لیا۔ حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ میں عجیب برکت پائی جاتی ہے! ایسی با برکت زندگی جس نے پوری تاریخ کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا اور پوری تاریخ پر اثر انداز رہی۔ آپؐ نے اپنے قول سے زیادہ اپنے عمل، سیرت اور کردار کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا ہے۔

اگر کوئی خوبی، صلاحیت اور سہولت نہ بھی ہو تو امت مسلمہ کم از کم حبیب کبریا کے حُسنٍ کلام ہی کا اتباع کریں۔ سورۃ بقرہ کی 83 ویں آیت مبارکہ دیکھیں 'وقو لو لناس حسنا' اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا۔ سورۃ بقرہ کی 263 ویں آیت مبارکہ پر غور کریں 'نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور در گزر کرنا' اس سلسلے میں سورۃ النحل کی 125 ویں آیت بھی قابلٍ ذکر ہے 'اے رسول معظم! آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بحث ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو'۔

ایک روایت میں حضرت ہند بن ابی ہالہ رحہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے، آپ طویل سکوت فرمانے والے یعنی خاموش طبع تھے، آپ کا آغاز کلام اس کا اختمام واضح ہوتا۔ حضور کا کلام اقدس مختصر مگر جامع الفاظ پر مشتمل ہوتا۔ الفاظ نہ ضرورت سے زیادہ ہوتے اور نہ اتنے مختصر کہ بات ہی واضح نہ ہو۔ (امام ترمذی نے السماء الحمد یتہ میں ابن حبان، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا)۔ جب آپ وہ خاموش ہوتے تو پر وقار ہوتے اور جب گفتگو فرماتے تو چہرہ اقدس پُر نور اور بارونق ہوتا۔ (امام حاکم، طبرانی اور ابن حبان سے روایت )

حضور اکرمؐ نے مدینہ کے قبائل کے سرداروں اور رئیسوں کی دعوت کو مسترد کرتے ہوئے اپنی اجتماعی صورت حال کو وضع کر دیا اور سب سمجھ گئے کہ سرورٍ کائنات کا معیارٍ معاشرت مال و منال، جاہ و جلال، قوم و قبیلہ، رشتہ داری وغیرہ نہ اب ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔

کس سے توحید کبریا ہو رقم

سر قلم ہیں یہاں قلم کے قلم

اس شخص پر روشنی کس طرح ڈالی جائے جو خود شمس اضحیٰ ہو 'نہ تیرا جمال ہوتا نا یہ کائنات ہوتی۔' جسکا ڈیوڑھی پر آفتاب بھی سجدہ ریز ہو، ماہتاب اس کی اشاروں پر چلتا ہو۔ ہماری گنہگار زبان، محدود فکر، سمندر میں قطرہ مانند علم، ہمارا ناقص قلم، کمزور دست، نا مکمل عقل، اس عقل کامل کی اخلاق و سیرت کی مدح و ثناء کس طرح کرے جس کی تعریف خدا وند عالم کرتا ہے۔ جس کی مدح خوانی قرآن کریم کچھ اس انداز میں کرتا ہوا نظر آتا ہے: احمد، حامد، محمود، مدثر، مزمل، طٰہٰ، یاسین، بشیر، نظیر، نور العُلا، صدرا الدقہ، مصباح الھدٰ، کلیم اللہ، حبیب اللہ، امین اور صادق۔

سورۃ نجم کی تیسری اور چوتھی آیت مبارکہ میں رسول ابدؐ کی تعریف میں رب العزت ام الکتاب میں ارشاد فرما رہاہے کی رسول اپنی ہوا و ہوس سے کچھ کلام نہیں کرتے بلکہ یہ تو وہی کہتی ہے۔ سورۃ النساء کی 80 ویں آیت میں ارشاد باری ہے "جس نے ہادی نیک کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کی اطاعت کی۔" سورۃ انفال، آیت 24 میں تنبیہ کی گئی ہے "جب تمہیں اللہ و رسول ؐ حیات کی طرف دعوت دیں تو تمھارا یہ وظیفہ ہے کہ ان کی آواز پر لبیک کہو، چاہے کتنے سنگ ہی سہی خدا اور رسولؐ کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا ورنہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔

اس امینؐ و صادقؐ کی شان میں کیا کہا جائے جس کے اخلاق و سیرت نے دنیائے کفر کو ریزہ ریزہ کردیا، فارسی آتشکدہ گل ہو گیا اور قیصر و کسرٰ کے کنگرے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئے۔ عظمت اتنی زیادہ کہ خدا نے اپنا مہمان بنایا۔ آپؐ کی شان و عظمت یہ ہے کہ جبرئیل امین خدا کا سلام لیکر نازل ہوتے ہیں اور انکساری اس حد تک کہ مکہ کے بچوں کو سلام کرنے کا موقع نہیں دیتے۔

ذوالجلال و لا لکرام و جل جلا لہ نے مکرمؐ، طیب و طاہر ؐ کو عالم بشریت کی رہنمائی کے لیے مامور فرمایا جن کی رسالت کے جلووں نے ہمارے دل کے فانوس میں معرفت کی شمع چمکائ۔ اُجالے میں ہم نے اپنے آپ کو بندہ اور اس کو معبود پہچانا۔ وہ نعمت عظمٰی کہ جس کے صدقے میں نور ایماں سے نہال اور دولت سے بے زوال کہ جس کی بدولت متاع دین و اسلام سے مالا مال ہو گئے۔ وہ کون؟ بے یاروں کا یار، بے مددگاروں کا مدگار، بےوسیلوں کا وسیلہ، بے بھروسوں کا بھروسہ، بے بسوں کا بس، بے کسوں کا کس، ٹوٹے دلوں کا سہارا، اللہ تعالٰی کا پیارا، دونوں جہاں کا مختار، مدینہ منورہ کا تاجدار، جس کے اشاروں پر شمس و قمر پھریں، سب حور و ملک، جن و بشر انہیؐں کا دم بھرتے ہیں۔ چرند و پرند، شجر و حجران کو سجدہ کرتے ہیں۔ شفاعت کا تاج انہیںؐ کے سر سجا، آپؐ ہی عرش و فرش کے ظاہری و باطنی خزانوں کے بانٹنے والے ہیں۔

سخی کچھ ہو نواسوں کا صدقہ

صدا دے رہے ہیں صدا دینے والے

طلب تو کرو دین و دنیا کی دولت

ہیں دب کو حبیبؐ خدا دینے والے

ماشاءاللہ! عُشاقٍ حبیبؐ اللہ واقف ہو گئے کہ محمودؐ کے بعثت کا مقصد اور ہدف کیا ہے؟ اخلاق و سیرت کیسی ہے؟ اللہ تعالٰی کا پیغام حقیقت میں یہی اتباعٍ اللہ اور محمد مصطفٰیؐ ہے:

کی محمدؐ سے وفا تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

کل جہاں سے لیکر اپنا ملک، ہندوستان کی سرزمین تک آپؐ کے پیکرٍ بشریت کے اخلاق، سیرت، سادگی اور عاجزی سے مرغوب ہو کر غیر مسلم سماجی اور قومی زندگی میں کامیاب ہو رہے ہیں اور ہم ہیں کہ یومٍ ولادت کی تاریخ، نالعین، مُو، روحانی یا جسمانی معراج، باغ فدک، خد و خال اور دیگر معمولی شئے کو مرکز بحث و نجات بنائے ہوئے ہیں۔

المختصر، عاشقان رسول اکرمؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم تاجدارٍ انبیاءؐ کی سیرت پر چلیں، خلوت و جلوت میں آپؐ کی سُنتوں کو زندہ کریں اور آپؐ جو مشن لے کر آئے اس کا حصہ بنیں اور اس کو آگے بڑھائیں۔ ربیع الاول کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ آپؐ کی سیرت پاک سے روشنی حاصل کریں اور اسے اختیار کرنے کی کوشش کریں! علم سیرت محض ایک شخصیت کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک تمدن، ایک قوم، ایک ملت اور ایک الٰہی پیغام کے آغاز اور ارتقاء کی انتہائی اہم داستان ہے۔ لہذا دنیا کو منور کریں اور آخرت میں اعلٰی مقام حاصل کریں! راقم اس امر کو رہبر معظم آیتہ اللہ سید علی خامنہ ای کی فکر سے مربوط کرنا چاہتا ہے "رسول اکرمؐ کی پیروی آج کی اسلامی دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے۔"

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .